عباس پور Abbaspur |
glasses

دیا جلائے رکھنا

یہ ذکر ہے آج سے قریباً ستر سال بیشتر کا، جب شہرِ عباس پور کی بنیادیں اٹھائی گئیں؛ کہیں دکانوں اور مارکیٹوں کی طرح ڈالی جا رہی تھی، تو کہیں سرکاری دفاتر اور انتظامی اداروں کے قیام کا سلسلہ جاری تھا۔ ایسے میں شہر پونچھ سے ہجرت کر کے آنے والی ایک جواں سال لڑکی نے تعلیم نسواں کی مشعل بلند کی جو شاید وہ پونچھ سے ہی اپنے ہمراہ لائی تھی۔یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ ایک تاریخ ساز کارنامہ تھا۔ خصوصاً ۴۷ء ایسے پرآشوب دور سے گرز کر جب ہر شخص اعصاب شکستہ اور ہجرت کے عمل کے باعث بے سروسامان تھا۔ ایسے میں کون اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے کا سوچتا؟ بلکہ صورتِ حال یہ تھی کہ لڑکوں کی تعلیم کی جانب بھی بہت کم لوگ توجہ دے پا رہے تھے۔ اس امر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بوائز سکول عباس پور میں پوئر فنڈ قائم کیا گیا تھا، جس کا انصرام پوئر فنڈ کمیٹی کے ذمہ تھا اور طلبہ کی اکثریت نصابی کتب اور واجبات کے سلسلے میں پوئر فنڈ کی مرہون منت تھی۔
تعلیم نسواں کی علمبردار اس لڑکی کا نام وزیر بیگم تھا، ریٹائرڈ صدر معلم سردار محمد اقبال صاحب کی شریک حیات؛ ایک ایسی عظیم ہستی جو ابھی تک لوگوں کے دلوں میں ’’بہن جی‘‘ کے لقب سے زندہ ہیں اور جو اہلیانِ عباس پور کے لئے بہت محترم و منفرد ہیں۔آپ نے اپنے گھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سکول قائم کیا اور قوم کی بیٹیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا مشن لے کر خود کو اس کے لئے وقف کر دیا۔ نیّت میں اخلاص اور جذبہ صادق ہو تو راستے آسان ہو جاتے ہیں۔ آپ کا قائم کیا ہوا گرلز پرائمری سکول ترقی کے زینے طے کرتا ہواآج ڈگری کالج بن چکا ہے۔
آپ کو عباس پور میں تعلیم نسواں کی بانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یوں خطہ عباس پور کی تقریباً تمام خواتین بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ کی شاگرد ہیں۔ یہ ایک اعزاز بھی ہے اور صدقہ جاریہ بھی۔ آپ زندگی بھر تعلیم نسواں کے لئے کوشاں رہی، اور اپنے قائم کئے ہوئے ادارے کو ایک منفرد اور مثالی ادارہ بنا کر بالآخر سربراہ ادارہ کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئیں۔ آپ کی وفات پر محترم حفیظ شاکرؔ نے کہا تھا:


بڑی آپا سا کریں کام جو شاکرؔ جگ میں
قوم کی ماں کا لقب ان کو ملا ہے اب تک



آج جبکہ وہ ہم میں موجود نہیں تو دست قدرت نے ان کی بیٹی محترمہ عصمت اقبال چغتائی کو گرلز ڈگری کالج عباس پور کی سربراہ ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ گویا ماں کی جلائی ہوئی مشعل بیٹی کے ہاتھوں میں تھما دی گئی ہے۔ یقینا محترمہ عصمت اقبال چغتائی اس وراثت کی سزاوار بھی ہیں اور اہل بھی۔ آپ گزشتہ دس سال سے ڈگری کالج کی پرنسپل کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اور آپ کی سربراہی میں یہ ادارہ روز افزوں ترقی کر رہاہے اور تعلیمی معیار میں آزاد کشمیر بھر کے تعلیمی اداروں میں ممتاز مقام کا حامل ہے۔
محترمہ وزیر بیگم (مرحومہ) کے تذکرہ آیا ہے تو اس جانب بھی توجہ دی جانی چاہئے کہ گرلز ہائی سکول عباس پور کی وہ عمارت جس میں محترمہ وزیر بیگم نے ایک عرصہ تک ادارہ کو چلایا اور جو ۲۰۰۵ء کے زلزلہ میں تباہ ہو گئی تھی؛ تاحال اس کی تعمیر نو نہیں ہو سکی۔ زلزلہ کے بعد جن طالبات نے نرسری میں داخلہ لیا تھا وہ اب میٹرک پاس کر کے اس ادارہ سے جا چکی ہیں، انہوںنے سکول کی تعلیم یا تو ٹینٹوں میں اور یا پرائی اور شکشتہ عمارتوں میں مکمل کی۔ یہ ہمارے اربابِ اختیار کی کارکردگی پر ایسا سوالیہ نشان ہے جس پر اب توجہ دی جانی چاہئے۔
تاہم گرلز ڈگری کالج عباس پور جتنی بہترین مکانیت کا حامل ہے اس سے بڑھ کر اس کے نتائج شاندار ہیں۔۔
ویل ڈن میڈم عصمت اقبال۔۔!